زندگی اندھیرے کب تک سمیٹے گی ؟ رات بہروپیے کب تک لپیٹے گی ؟
زندگی کب تک صفحہ ہستی سے مٹائی جاۓ گی ؟ حوّا کب تک بے گناہ دفنائی جاۓ گی ؟
درندہ صفت لوگ مرنا کب سیکھیں گے ؟ زندہ دل لوگ جینا کب سیکھے گے ؟
کیا ہر گھر سے لاش اٹھائی جاۓ گی ؟ لاش سے پہلے بھی روح ہَوَس کا نشانہ بنائی جاۓ گی ؟
یہ حوا ‘ آصفہ ‘ فرشتہ ‘ زینب اور فلاں فلاں کو حوس کا نشانہ بناتے رہیں گے ؟ کب تک معززین اپنے منہ چھپاتے رہیں گے ؟ کب تک ضمیر کو زہر پلاتے رہیں گے ؟ کب تک یہ درندے یوں آتے رہیں گے ؟
ہم کب تک منہ سے منصف بلاتے رہیں گے ؟ ہم منصف بلاتے رہیں گے اور ملزم بھلاتے رہیں گے ؟
چور جب گھر آۓ گا تب بولیں گے ؟ بولیں گے یا فقط چپ تولیں گے ؟ چپ تولیں گے تو بغاوت کے خون کھولیں گے !
میں حیراں ہوں دعا کروں یا شکوہِ خدا کروں ؟ ملزم سے وفا کروں یا ملزوم سے دغا کروں ؟
ان فرشتوں کا آخر قصور کیسا ہو گا ؟ سارے چپ رہے تو ملزم کو سرور کیسا ہو گا ؟
تم میں یوں ہی لب ہلاتے رہیں گے ؟ لب ہلاتے رہیں گے فرشتے دفناتے رہیں گے ۔۔۔ بیٹی پیدا ہوئی تو عمر بھر چھپاتے رہیں گے ۔۔ درندے یونہی وحشت دکھاتے رہیں گے ۔۔
تم حیرت تولو گے احساسِ زیاں نہیں تولو گے ؟ تم کل بھی دکاں کھولو گے زباں نہیں کھولو گے ۔۔۔
آج عقیدے میرے مرتے جا رہے ہیں ۔۔۔ خدا جاگ رہا ہے پھر بھی لوگ درندوں کے ہاتھ چڑھتے جا رہے ہیں ۔۔
تمہارے ضمیر مانا قبروں میں جا بسے ۔۔
مگر کسی کی بیٹی کی خاطر زباں کھولو تو سہی ۔۔ ملزم کا ایک خانہ کھولو تو سہی ۔۔۔ تم مفلوج ہو مانتا ہوں کر تو کچھ نہیں سکتے ۔۔
مگر سنو ! حوا کی خاطر بولو تو سہی ۔۔۔ بولو تو سہی ۔۔ بولو تو سہی ۔۔
Submitted By a medical student of Quaid e Azam Medical College Bahawalpur