Entertainment Trending

میرے پاس تم ہو حقیقی اور تنقیدی جائزہ

میرے پاس تم ہو حقیقی اور تنقیدی جائزہ

تحریر: سونیا اکمل قریشی

ایک ہی سیٹ تلے جب ساری کاسٹ فلسفی ہوجائے تو کہلاتی ہے میرے پاس تم ہو منقول
جی میرے پاس تم ہو ! سٹوری سے شروع نہیں کروں گی کیوں کے آج کل پورا پاکستاں ملکی حالات سے واقف ہو یا نہ ہو میرے پاس تم ہو کی سٹوری سے باخوبی واقف ہے.
پاکستانی ڈراموں کی بات کی جائے تو وہ حقیقت پسندی کی وجہ سے مقبول ہیں اور بے حد پسند بھی کیے جاتے ہیں مگر افسوس اس ڈرامے کا تعلق حقیقی زندگی سے دور دور تک نہیں ہے شاید یا تو ہمارے رائٹرز کے پاس حقیقی کہانیاں ختم ہو چکی ہیں اور وہ عوام کو مسائل سے ہٹ کر افسانوی دنیا دیکھانا چاہتے ہیں یا شاید نظریہ فیمینیزم کا توڑ نکالنا چاہ رہے ہیں. یا مرد حضرات ہر ڈرامے میں مرد کو بے وفا اور برا دیکھ کر تنگ آچکے ہیں.
اگر بات کی جائے دانش کی تو ہر عورت اور مرد اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھیں کہ کیا وہ اس قسم کے طور طریقوں پر بیوی کو معاف کر دیں گے اور طلاق تو دور کی بات شوہر سے چھوٹ بول کر غیر مرد کے ساتھ دوسرے شہر تک جانے پر کیا ایک تھپڑ تک رسید نہیں کریں گے؟
اگر درست زاویے سے سوچا جائے تو یہاں غلطی صرف مہوش کی نہں بلکہ دانش کی ہے. ہمارے یہاں ڈراموں میں عجیب ٹرینڈ دیکھایا جا رہا ہے جہاں مرد کو نرمی برتتے ہوئے چھوٹ دینی چائیے وہاں وہ اسے چادر اور چار دیواری میں قید رکھ رہا ہے اور جہاں قابو کرنے کی ضرورت ہے وہاں بے جا چھوٹ دی جا رہی ہے
دانش کا کردار اگر اصل زندگی میں دیکھا جائے تو یہ محض افسانوی ہے کیوں کے حقیقی زندگی میں مرد سب برداشت کر سکتا ہے مگر اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ دوسرے شہر میں تو دور دوسرے کمرے میں اکیلا برداشت نہیں کر سکتا.
اب آتے ہیں رومی کے کردار پر رومی ایک ننہ سا بچہ جو سب کا,کرتا دھرتا دیکھا گیا,ہے ہمارے بچے اس میڈیا کے دور میں بے حد تیز ہیں اور سب جانتے بھی ہیں مگر کیا وہ اس قدر فلسفی باتیں اور ریشتوں کے توڑ جوڑ یوں آسانی سے کر سکتے ہیں ؟ کیا باپ اور استاد بھی اس بچے کو منع کرنے کے بجائے حقیقی زندگی میں اس کے اشاروں پر ناچتے ہیں؟
ہمارے معاشرے میں 20 سل کی عمر میں بھی نازک معاملات میں دخل اندازی کی جائے تو والدیں اور اساتذہ جھڑپ دیتے ہیں اور یہاں یہ بچہ پڑھائی کے علاوہ ہرنازک معاملے میں مصروف ہے.
اگر بات مہوش کی کی جائے تو یہاں بہت سے افراد یقینا عتراض کریں گے کیوں کے مرد کو بے وجہ طلاق دے کر دوسری شادی کے بارے میں سوچنے کی اجازت ہے مگر معاشرہ عورت کو یہ اجازت نہیں دیتا.
باذات خود مہوش کے اس عمل کو میں برا سمجھتی ہوں مگر معاشرے میں وہ عورتیں بھی موجود ہیں جو اپنی شادی شدہ زندگی سے خوش نہیں ہیں اور کسی موڑ پر انہیں اپنی من چاہی زندگی ملنے کا امکان نظر آرہا ہو تو کیا معاشرہ انہیں طلاق اورعدت کے فوری بعد دوسری شادی کا حق نہیں دیتا؟ طلاق دور کی بات شوہر کے مرنے کے بعد عدت ختم ہونے پر دوسری شادی کی جائے تو عورت پر الزام تراشی کی جاتی یے جب کے مرد شادی شدہ ہونے کے باوجود کسی دوسری عورت کو پسند کرنے کا حق رکھاتا ہے مگر عورت کو کسی صورت یہ حق نہیں دیا گیا جب کہ پسندیدگی ایک فطری عمل ہے. عورت پیسے اور عیش و عشرت کے لیے دوسری شادی کرے تو دو ٹکے کی کہلاتی ہے قطعی کوئی اختلاف نہیں بلکہ عورت کو اپنے اس معیار پر شرمسار ہونا چاہیے مگر ایک سوال ذہن میں آتاہے کہ اگر مرد محض پیسے کے لیے دوسری عورت سے شادی کرے یا رشتہ قائم کرے تو کیا کہلاتا ہے؟ کیا تمام تر برے القابات عورت کے لیے مختص کیے گئے ہیں؟
ہمارے معاشرے کا علمیہ یہ ہے کہ سب چیزوں کی امید عورت سے کی جاتی یے خواہ وہ محبت ہو وفاداری ہو سمجھوتہ ہو یا معافی اور یہ تمام گن اسے اچھی عورت کا درجہ دیتے ہیں جب کہ ان میں سے کسی چیز کی کمی پر عورت سے اچھی عورت ہونے کا بلکہ عورت ہونے کا ہی ٹائٹل چھیں لیا جاتا ہے. کیا عورتوں کے لیے معاشرے کا یہ دوہرا معیار قابل قبول اور جائز ہے!

Related posts

Two men allegedly cheated a doctor by selling him “Aladdin’s lamp” for Rs 2.5 crore

Team MediaRay

5 Best Restaurants in Karachi:

Iqra Ashfaq

The Israeli-Palestinian Conflict

Maham Batool

Leave a Comment